Sunday, September 12, 2010

ایک کرکٹر کا خط

کرکٹ کے ایک کھلاڑی نے اپنے دادا جان کے بارے میں اپنے دوست کو کچھ اس طرح سے سنایا:۔
سوچتا هوں، تمھیں کیا لکھوں اور لکھوں تو کس طرح لکھوں؟ وه نه صرف همارے گھر کی ٹیم کے کپتان تھے بلکه بھترین اوپنر بھی تھے۔ پچ پر ھمیشه جم کر کھیلے۔ اس سے انکار نھیں کیا جاسکتا که وه کئ بار سلپ بھی ھوۓ، رن آؤٹ هوتے هوۓ بچے۔ مگر یه تو کرکٹ کے ھر کھلاڑی کے ساتھ هوتا هے۔ مگر کھلاڑی تو وه ھے جو گر کر سنبھل جاۓ۔ دادا جان بھی ایسے هی کھلاڑی تھے۔ امپائروں نے انھیں باربار سراھا، تماشائیوں نے انھیں خوب داد دی، اس لیے وه کئ مرتبه ذیابطس کے هاتھوں ایل بی ڈبلیو هوتے هوۓ بچے۔
پرسوں جب وه بیٹنگ کرنے آۓ، تو کافی هشاش بشاش نظر آرھے تھے۔ مضبوط فیلڈنگ کی پروا کیۓ بغیر وه اب تک 82 رنز بنا چکے تھے اور ھماری ٹیم کو امید تھی که وه اپنی سینچری ضرور مکمل کرلیں گے۔ مگر واۓ افسوس کے، زیابطس کے اوورز ختم هوچکے تھے۔ ٹھیک رات کے باره بجے جب آخری بال ره گئ تو بولر نے بال تبدیل کروا دی اور وه اسی آخری بال پر عزرائیل کے هاتھوں کیچ آؤٹ هوگۓ۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts with Thumbnails